فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
پھر یہ کیسی بات ہے کہ جب انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی مصیبت (70) لاحق ہوتی ہے، تو آپ کے پاس آکر اللہ کی قسم کھاتے ہیں، کہ ہم نے تو صرف بھلائی اور آپس میں ملانے کی نیت کی تھی
ف 3 آیت کا پہلا حصہ جملہ معترضہ ہے اور ثم جاعوت سے پہلی آیت کے ساتھ مربوط ہے ان آیات کی دوسری شان نزول یہ بھی بیان کی گئے ی ہے کہ مدینے میں ایک یہودی اور ایک مسلمان (منافق) کی کسی معاملہ میں نزاع ہوگئی یہو دی کو معلوم تھا کہ آنحضرت ﷺ حق فیصلہ کریں گے اور رعایت سے کام نہیں لیں گے اس لیے منافق سے کہا کہ چلو محمد ﷺ سے فیصلہ کرواتے ہیں منانفق کہا تم یہودیوں کے عالم رکعب بن اشرف کے پاس چلیں آخر دونوں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی اکرم ﷺ نے بیان سن کر یہودی کو سچاقرار دیا۔ منا فق نے باہر آکر کہا کہ اچھا اب عمر (رض) کے پاس چلیں یہ آنحضرت ﷺ کے حکم سے مدینے میں فیصلہ کرتے تھے۔ منافق نے غالبا یہ خیلا کیا ہوگا کہ حضرت عمر (رض) حمیت مذہبی کے باعث یہو دی کے مقابلے میں اس کی رعایت کریں گے چنانچہ وہ دونوں حضرت عمر (رض) کے پاس آئے یہودی نے سارا ماجرا کہہ سنایا کہ حضرت ﷺ کے پاس سے آئے ہیں اور انہوں نے مجھے سچا قرار دیا ہے حضرت عمر (رض) یہ سن کر گھر کے اندر تشریف لے گئے اور تلوار لاکر منافق کا سرقلم کردیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ پسند نہ کر اس کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے منا فق کے ورثا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور حضرت عمر (رض) پر قتل کا دعویٰ کردیا اور قسمیں کھا نے لگے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس تو اس لیے گئے تھے کہ شاید باہم صلح کرادیں رسول اللہ ﷺ نے فرمای کہ میں یہ یقین نہیں کرسکتا کہ عمر (رض) کسی مسلمان کو ناحق قتل کردیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نے آنحضرت کو بتایا کہ عمر (رض) نے حق ارباطل کے درمیان فیصلہ کردیا ہے۔ چنانچہ اس روز سے آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) کو فارق کا لقب عطا فرمایا۔ (قرطبی۔ (فتح الباری باب سکرلانہار) اختلاف الفاظ کے ساتھ یہ قصہ معالم اور ابن کثیر میں بھی مذکور ہے مگر ابن کثیر میں فاروقی کی وجہ تسمیہ والا حصہ ساقط ہے۔ ( م۔ ع)