يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت (66) کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہوجائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو (67) اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے
ف 6 مو ضح کا ترجمہ اورفائدہ یہ ہے أُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ اختیار والے بادشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے جب تک وہ خلاف خدا اور سول (ﷺ) حکم نہ کرے اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانے ایک امیر کی اطاعت کے سلسلہ میں آپ (ﷺ) نے فرمایا(إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ) کہ امیر کی اطاعت صرف معروف یعنی نیکی میں ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین) ف 7 اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے یعنی باہمی نزاع کی صورت میں اللہ و رسول (ﷺ) کی طرف رجوع ہونا شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اتباع ہے اور رسول الله(ﷺ) کی اطاعت ہے۔ آپ(ﷺ) کی زندگی کے بعد آپ (ﷺ) کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں مستقل ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ (ﷺ) کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں۔ اس آیت سے مقلدین دلیل لیتے ہیں تقلید کے واجب ہونے پر لیکن یہ دلیل نہیں ہو سکتی اولی الامر سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں (دیکھئے فوائد موضح) لیکن اگر سلف (رح) سے یہ منقول ہے کہ علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے دوسرے بالفرض تسلیم عالم کی تقلید کا حکم اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو پھر خود رائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن نے حکم دیا ہے کہ ائمہ (رح) کی اتباع میں جھگڑ اہو تو اللہ و رسول (ﷺ) کی طرف رجوع ہونا چاہیے (ترجمان) ف 1 اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں ایک نے کہا چل شرع کی طرف رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بے شک کافرہوا (موضح)