إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (65) ان کے مالکوں تک پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے
ف 5 درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا اب دوبارہ سلسلئہ احکام کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر جوا کرتے۔ مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے اس کا تعلق مذہب ودیا نت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے لیکن یہود کتمان حق کر کے امانت علمی میں خیانت کے مرتکب تھے بعض روایات میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن طلحتہ بن ابی طلحتہ احجبی سے کعبی کی کنجی لے لی۔ اس پر جبرائیل نازل ہوئے اور کنجی واپس کردینے کا حکم دیا (ابن جریر) آیت میں ہر قسم کے ذمہ کو اس کے اہل کے سپر کرنے کا حکم دیا ہے نیز حکم دیا ہے کہ ہر قسم کے فیصلوں سے عدل وانصاف کو ملحوظ رکھا جائے صحیحین کی ایک روایت میں خیانت درامان کو نفاق کی ایک خصلت قرار دیا ہے۔ نیز آپﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تک حاکم بے انصافی پر اتر آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے حوالے کردیتا ہے اور ایک اثر میں ہے کہ ایک دن عدل کرنا جالیس سال کی عبادت بہتر ہے (ابن کثیر )