أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ
مسلمانو ! تم مطلقہ عورتوں کو وہیں ٹھہراؤ(٤) جہاں تم اپنی مقدور کے مطابق خود ٹھہرتے ہو، اور تم انہیں تکلیف نہ دو تاکہ ان کا جینا دو بھر کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کا خرچ دو یہاں تک کہ وہ بچے جن دیں، پس اگر وہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو، اور (دود ھ پلانے کے بارے میں) تم آپس میں نیک نیتی کے ساتھ مشورہ کرلو، اور اگر معاملہ طے کرنے میں تمہارے درمیان مشکل پیش آئے، تو اس کے بچہ کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی
ف 2 یعنی عدت گزرنے تک نہیں خچ اور رہنے کے لئے مکان دو مراد وہ عورتیں ہیں جنہیں رجعی لاق دی جائے۔ رہی وہ عورت جسے تین طلاقیں مل چکی ہوں تو اسے نہ خرچ دینا ضروری ہے اور نہ رہنے کے لئے مکان فاطمہ بنت قیس کی حدیث میں آنحضرت نے یہ تصریح کردی ہے کہ سکنی اور نفقہ اس عورت کے لئے ہے جسے رجی طلاق دی گی ہو اور جب تین طلاقیں دے دی گئی ہوں تو اس کے لئے کوئی نفقہ و سکنی نہیں ہے۔ وقدم ابن کثیر ف 3 یعنی سکوتن اور خرچ کے معاملہ میں ان پر تنگی نہ کرو۔ ف 4 مطلقہ حاملہ عورت کے لئے تا وضع حمل نفقہ اور سکنی کے واجب ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے بشرطیکہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور تین طلاق ہونے کی صورت میں بھی اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے۔ اختلاف صرف اس حاملہ کے بارے میں ہے جس کے شوہر کا اتنقال ہوگیا ہو حضرت علی ابن عمر ابن مسعود شرجیح نخفی اور شعبی وغیرہ ہم کہتے ہیں کہ اس پر پورے سال میں سے خرچ کیا جائے گا اور حضرت ابن عباس، ابن الزبیر جابر بن عبد اللہ، ائمہ ثلاثہ (شافعی مالک اور ابوحن یفہ کہتے ہیں اس پر اس حصے میں سے خرچ کیا جائے گا جو اسے بطور ترکہ ملے گا۔ ولعلہ ھوالصحیح (شوکانی) ف 5 یعنی عورت زیادہ اجرت مانگے اور مرد اتنی اجرت دینے کو تیار نہ ہو۔ ف 6 یعنی شوہر اپنے بچے کو کسی دوسری عورت سے دودھ پلوا لے۔ اس پر نہ یہ واجب ہے کہ بیوی کو اتنی اجرت ضرور ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ جس اجرت پر چاہے بیوی کو دودھ پلانے پر مجبور کرے۔ شوکانی جتنی اجرت پر کوئی دوسری عورت دودھ پلانے کو تیار ہو وہ اگر بیوی کو بھی منظور ہو تو وہ دودھ پلائے گی کیونکہ اپنے بچے پر اس کا حق زیادہ ہے۔ (ابن کثیر)