سورة الجمعة - آیت 2

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اسی نے ان پڑھ (٢) لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور انہیں (کفر و شرک کی آلائشوں سے) پاک کرتے ہیں، اور انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہیں، بے شک وہ لوگ ان کی بعثت سے قبل صریح گمراہی میں مبتلا تھے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 یعنی حضرت محمد )ﷺ( جو عرب تھے اور ان پڑھ بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ عرب کے ہر قبیلہ کے ساتھ آپ کی کچھ نہ کچھ رشتہ داری تھی سوائے بنی تغلب کے جو عیسائی تھے … عربوں کو ’’اُمیّ ‘‘یا تو اکثریت کے اعتبار سے فرمایا ہے اور یا اس اعتبار سے کہ آنحضرت)ﷺ( سے پہلے کوئی کتاب الٰہی ان میں نہ آئی تھی ان کے مقابلہ میں یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب کہا گیا کیونکہ ان کے ہاں توراۃ و انجیل وغیرہ آسمانی کتابیں آچکی تھیں آنحضرت )ﷺ(کو اُمیّ کہنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ بے علم تھے بلکہ یہ ہے کہ آپ نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا۔ آنحضرت) ﷺ(کے پاس جو علم تھا وہ اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی حاصل کیا گیا تھا لہٰذا یہ صحیح نہیں ہے کہ پہلے اُمیّ یا ان پڑھ کے معنی بے علم سمجھے جائیں اور پھر آپ کو عالم ثابت کر کے آپ کی نبوت پے بے جا اعتراضات کئے جائیں جیسا کہ مستشرقین سے متاثر ہو کر بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ ف 4 یہ حکمت (دانائی) وہی چیز ہے جسے عام اصطلاح میں حدیث یا سنت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آنحضرت)ﷺ( کے فرائض منصبی میں سے ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ ف 5 یعنی بت پرستی میں مبتلا تھے۔ کسی پیغمبر کی تعلیم سے واقف نہ تھے۔ ان کے ہاں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا۔ ان کے ہر قبیلہ کا خدا دوسرے قبیلہ کے خدا سے الگ تھا۔ الغرض انتہائی پستی اور گمراہی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اور اقوام عالم میں ان کا کوئی مقام نہ تھا۔