يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت (٩) کرکے آئیں، تو تم انہیں آزمالیا کرو، اللہ ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے، پس اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں، تو انہیں کافروں کے پاس واپس نہ بھیجو، وہ مسلمان عورتیں کافروں کے لئے حلال نہیں ہیں اور نہ وہ کفار مرد ان مسلمان عورتوں کے لئے حلال ہیں، اور ان کافروں نے (شادی میں) جو خرچ کیا ہے، انہیں واپس کردو، اور تمہارے لئے کوئی حرج کی بات نہیں کہ ان عورتوں کا مہر دے کر ان سے نکاح کرلو، اور تم لوگ اپنی کافر بیویوں کو اپنے پاس نہ رکھو، اور تم نے (نکاح پر) جو خرچ کیا تھا، اس کا مطالبہ کرو، اور کافروں نے جو خرچ کیا تھا، اس کا وہ مطالبہ کریں، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے، اور اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑی حکمتوں والا ہے
ف 1 یعنی انہیں آزما لو کہ وہ حقیقت میں مسلمان ہیں بھی کہ نہیں؟ مسور بن محزمہ مروان بن حکم سے راوی ہے کہ جب حدیبیہ کے روز آنحضرت کا قریش سے معاہدہ ہوا تو کچھ مسلمان عورتیں آپ کے پاس چلی آئیں انہی کے بارے میں آیت نازل ہوئی (شوکانی) ف 2 یعنی اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہے کہ وہ ایماندار ہیں یا نہیں لیکن تمہیں چونکہ حقیقت حال نہیں ہے اس لئے ان عورتوں کو آزمائے بغیر اپنے ہاں پناہ نہ دو شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” طاہر میں ان کا جانچنا یہ کہ اگلی آیت میں جو حکم ہیں یہ قبول کریں۔“ ف 3 اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کا نکاح کافر ( مرد سے نہیں ہوسکتا اور کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے تو اس سے کے شوہر سے جا کردیا اور اگر شوہر بھی مسلمان ہوجائے تو نکاح برقرار یہ کہ اگلی آیت میں جو حکم ہیں۔ ف 4 یعنی ان کی عدت گزر جانے کے بعد جیسا آلہ و جوب عدت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی) ف 5 یعنی اگر شوہر مسلمان ہوجائے اور بیوی شرک پر قائم تو ایسی عورت کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اس نے روجیت میں رکھنا جائز نہیں ہے البتہ اگر وہ کتابیہ (یہودی یا عیسائی) ہو تو اسے چھوڑنا ضروری نہیں ہے۔ محمد بن اسحاق نے امام زہری سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو حضرت عمر نے اپنی دونوں کافروں کو طلاق دے دی۔ اسی طرح حضرت طلحہ نے بھی اپنی ایک بیوی کو طلاق دی۔ (ابن کثیر) ف 6 یعنی اگر وہ ان عورتوں کو اپنے پاس رکھنا چاہیں۔ ف 7 یعنی جب وہ عورتیں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئیں اور کافروں کو ان کی عورتوں کا مہر واپس کردینے کا حکم بسبب عہد کے تھا اور نہ یہ مراد جب نہیں۔ (جامع البیان) شاہ صاحب بھی لکھتے ہیں۔ ” یہ حکم جب تھا کافروں سے صلح ٹھہر گئئی تھی پھیر دینے پر اب یہ حکم نہیں مگر کہیں ایسی صلح کا اتفاق ہوجاوے۔