سورة المجادلة - آیت 22

لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان (١٥) رکھتے ہیں، انہیں آپ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، یا بیٹے ہوں، یا ان کے بھائی ہوں، یا ان کے خاوند والے ہوں، انہی لوگوں کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو راسخ کردیا ہے، اور ان کی تائید اپنی نصرت خاص سے کی ہے، اور اللہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوگیا، اور وہ اس سے راضی ہوگئے، وہی اللہ کی جماعت کے لوگ ہیں، آگاہ رہیے کہ جماعت کے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 مطلب یہ یہ کہ اللہ و آخرت پر ایمان اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دوستی دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ ف 8 یہ آیت صحابہ کرام کی شان میں نازل ہوئی۔ چنانچہ حدیث و سیرت کی کاتبوں میں ہے کہ جنگ بدر میں حضرت ابوعبیدہ نے اپنے والد کو قتل کیا۔ جنگ اس میں حضرت ابوبکر صدق اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کے مقابلے میں نکلے۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمر کو اور حضرت عمر نے اپنے ماموں قاص بن ہشام کو اور حضرت علی حمزہ اور عبیدہ بن حارث نے عتبہ شبیہ اور ولید بن قلبہ کو (جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے) قتل کیا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے عبداللہ نے جو مخلص مسلمان تھے آنحضرت سے عرض کیا کہ ” اے اللہ کے رسول اگر آپ حک دیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں۔“ آپ نے منع فرمایا۔ الفرض ان صحابہ نے اللہ و رسول کے مقابل ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں تک کی پروا نہ کی۔ یہ بات ان کے مناقب میں سنہری حروف میں لکھی جانے کی ہے۔ (ابن کثیر وقرطی) ف 9 یا ” اپنے فیض غیب سے انکی مدد کی“ یعنی انہیں وہ غیبی نور عطا فرمایا جس سے دل کو اطمینان و سکون اور روح کو تقویت حاصل ہوتی ہے اور پھر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ صاحب جامع البیان لکھتے ہیں :” یہاں روح سے مراد غلبہ یا نور ایمان ہے واللہ اعلم ف 1 یہ ہے وہ تصدیق نامہ جو صحابہ کرام کو اللہ تعالیٰ کی جناب سے حاصل ہوا۔ بایں ہمہ کیا ان لوگوں کی بدبختی کا اندازہ ہوسکتا ہے جو ان کو برا کہتے ہیں؟ شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹا ہو وہی سچے ایمان والے ہیں۔ ان کو یہ درجے ہیں