لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
(یہ بات تمہیں اس لئے بتا دی گئی) تاکہ جو چیز تمہیں نہیں ملی، اس کا افسوس نہ کرو، اور جو نعمت اس نے تمہیں عطا کی ہے اس پر خوشی نہ مناؤ، اور اللہ ہر اس آدمی کو پسند نہیں کرتا ہے جو اترانے والا اور فخر کرنے والا ہوتا ہے
ف 6 یا ” تمہیں نہ ملے“ ف 7 ” بلکہ یہ سمجھ کر صبر کرو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پانی تھی۔ اگر اس نے یہ چیز ہماری قسمت میں لکھی ہوئی تو ہمیں ہر صورت مل کر رہتی“ اور اس نے جو ہماری قستم حق میں بہتر نہ تھا۔ اگر بہتر ہوتا تو وہ ضرور ہماری قسمت میں لکھتا۔ ف 8 بلکہ یہ سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے ہماری اپنی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کے حاصل کرنے کے لئے آدمی کو کوششبھی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ مطلب یہ کہ کوشش کے بعد اگر ناکامی ہو تو غم نہیں بلکہ صبر کرنا چاہئے اور بصورت کا میابی غرور کرتا نہیں بلکہ شکر بجا لانا چاہئے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ تقدیر ایمان کا فائدہ قرار دے رہا ہے۔ اس اصول پر عمل پیرا رہنے سے زندگی میں اعتدال رہتا ہے اور انسان افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونے پاتا۔