اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
تم سب جان لوکہ بے شک دنیا کی زندگی (١٩) کھیل، تماشہ، زیب و زینت، آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا، اور مال و دولت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس سے اگنے والا پودا کافروں کو خوش کر دیتا ہے ،پھر وہ خشک ہو جاتا ہے ،پھر زرد ہو جاتا ہے ،پھر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے ،اور آخرت میں (بروں کے لئے)سخت عذاب ہے اور( اچھوں کے لئے)اللہ کی مغفرت اور خوشنودی ہے ،اور دنیا کی ذندگی محض دھوکے کا سامان ہے
ف 5 یہ سچے اور مخلص اہل ایمان کے مقابلے میں دنیا دار لوگوں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام خواہشوں اور دلچسپیوں کا ذکر ان پانچ باتوں میں فرمایا دیا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ” آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہئے پھر تماشا پھر بنائو درست کرنا (یعنی بناؤ سنگھار کی فکر) پھر ساکھے کرنے اور نام حاصل کرنا (یعنی ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا اور (جب) مرنا قریب آوے تب فکر مال اور اولاد کا کہ پیچھے میرا گھر بنا رہے آسودہ۔ یہ سب دغا کی جنس سے آگے کام آئے گا کچھ اور( یعنی ایمان اور عمل صالح) یہ کچھ کام نہ آوے گا۔“ ف 6 جیسے دنیا داروں کو ان کی جوانی اور مالداری خوش کرتی ہے۔ ف 7 یہی حال دنیاکی زندگی کا ہے۔ بس چند روز بہار ہے آخر زوال اور پھر فنا ہے۔ ف 1 یعنی جس نے دنیا سے دل لگایا وہ دھوکے میں پڑگیا اور اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی۔ البتہ ایسے لوگوں کے لئے دنیا کی زندگی دھوکا نہیں ہے جنہوں نے اسے آخرت کا ذریعہ بنایا۔ آخرت کے ماقبلہ میں دنیا کی بے وقعتی کا ذکر بہت سی احادیث میں مذکور ہے۔