سورة الحديد - آیت 14

يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

منافقین اہل جنت کو پکاریں گے (١٤) کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے، تو وہ کہیں گے کہ ہاں، مگر تم نے اپنے آپ کو نفاق میں مبتلا کیا، اور مسلمانوں کے سلسلے میں کسی آفت کا انتظار کرتے رہے، اور شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (یعنی تمہاری موت) آگیا، اور شیطان تمہیں اللہ کے معاملے میں (آخری وقت تک) دھوکہ ہی دیتا رہا

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 8 مطل بیہ ہے کہ یہاں تمہیں روشنی ملنے والی نہیں ہے۔ یہ روشنی تو ایمان اور نیک اعمال کی ہے جو ہم نے دنیا میں کئے تھے۔ اب اگر پلٹ کر دنیا میں جاسکتے ہو تو چلے جائو اور وہاں سے روشنی کما کرلے آئو … ایک روایت میں ہے کہ پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن اور منافق کو روشنی دے گا۔ جب سب لوگ پل صراط پر پہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ منافقوں کی روشنی سلب کرلے گا اس وقت ایمانداروں سے درخواست کریں۔ انظھقا نفیس من نورکم اور ایماندار کہیں گے ربنا اتملنا نورناً اے رب ہمارے ہماری روشنی مکمل فرما (یعنی جنت میں داخل ہوجانے تک اسے باقی رکھ) اس موقع پر کوئی کسی دوسرے کو نہ پوچھے گا۔ ف 9 اس دیوار سے مراد وہ دیوار ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہوگی۔ (شو کانی) ف 10 جو آج ہمیں اکیلا چھوڑے دیتے ہو۔ ف 11 کہ کب ہم مسلمانوں پر کوء آفت نازل ہوتی ہے۔“ ف 2ۃ یعنی تم سمجھتے رہے بس چند دن میں مسلمان تباہ ہوجائیں گے اور اسلام کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔