وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
اور یتیموں (کے سمجھ بوجھ) کو آزماتے (8) رہو یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائیں، اگر تمہیں ان کی ہوشمندی کی طرف سے اطمینان ہوجائے تو ان کا مال ان کے حوالے کردو، اور فضول خرچی کر کے، اور ان کے بڑے ہونے سے پہلے جلدی کر کے اسے نہ کھا جاؤ، اور جو مالدار ہو، وہ (یتیم کا مال کھانے سے) بچے، اور جو محتاج ہو وہ اپنی مناسب مزدوری کے مطابق کھائے، پھر جب ان کا مال ان کے سپرد کرو تو ان پر گواہ بنا دو، اور اللہ بحیثیت حساب لینے والے کے کافی ہے
ف 4 یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سامال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کے دیکھو کہ آیا یہ اپنے مال کو بڑھاتے یا نہیں پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو با توقف مال ان کے حوالے کر دو۔ رشد سے مراد عقلی اور ادینی صلاحیت ہے پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے۔ اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی و چاہئے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی جس سے کم از کم ضرورت پوری ہو سکتے ف 6 یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے روبرو مال واپس کرے تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آۓ۔