إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
ف7 :عبادت کے معنی ذلت اور انکساری کا اظہار کرنے کے ہیں شرعا یہ ذلت اور انکساری اس صورت میں عبادت بنے گی جب اس ہستی کو ماورا ءالاسباب غیبی تسلط اور قدرت کا مالک سمجھ کر کمال محبت کے ساتھ اس کے سامنے ذلت و انکساری کا اظہار کیا جائے گا جیسا کہ عبادت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خا ص ہے۔ اسی طرح کسی معاملہ میں ماوراء الا سباب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد مانگنا بھی جائز نہیں ہے مثلا مرض کے علاج کے لے دواؤں کا ستعمال توجائز ہے مگر دوا اور علاج کو چھوڑ کر محض غیبی شفا کسی اور سے طلب کرے تو یہ شرک ہوگا اس قسم کی استعانت کے متعلق فرمایا( وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ)۔ مسئلہ: عموما دعاؤں میں بحر مت یا بطفیل فلاں بزرگ ( یا خود آنحضرت(ﷺ) کی ذات گرامی) کے الفاظ رواج پاگئے ہیں مگر قرآن اور احادیث صحیحہ سے اس کی صراحت نہیں ملتی ہاں صرف حدیث پاک میں دورد شریف کو قبولیت دعا کے اسباب میں سے قرار دیا گیا ہے ( مشکوہ 786، حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں ’’دعاؤں میں اس قسم کے الفاظ صحابہ تابعین اور سلف امت سے ثابت نہیں ہیں ‘‘( مختصر الفتادی المصر یہ ص 195) اسی طرح الوسی زادہ اپنی تفسیر روح المعانی ( ج 2 ص 300) میں لکھتے ہیں لم یعھد التوسل بالجاہ والحر مة عن احد من الصحا بۃ لہذا یہ دعا بالتوسل بدعت ہے