يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو (1) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو (دنیا میں) پھیلادیا، اور اس اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور قطع رحم سے بچو، بے شک اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے
) ف 5 یعنی پوری نوع انسانی ابو ال لبشر آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اسی ایک نفس سے اللہ تعالیٰ نے اس کا جوڑا (حوا) پیدا کیا۔ بعض نے منھا کر ترجمہ ای من جنسھتا کیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ اس سے لازم آّتا ہے کہ نفس واحدۃ نہیں بلکہ دونفسوں انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوئی اور ظاہر ہے کہ نص قرآن کے خلاف ہے۔ روح لمعامی) اب یہ سوال کہ آدم ( علیہ السلام) سے ان کی زوج کی تخلیق کیسے ہوئی قرآن نے اسے بیان نہیں نہیں کیا اور احادیث صحین سے یہ تو ثابت ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور بعض روایات میں فالھر خلقن من ضلع بھی بھی آیا ہے کہ سب عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی مگر کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خصوصیت کے ساتھ حضرت حوا ( علیہ السلام) (زوج آدم) آدم ( علیہ السلام) کی پسی سے پیدا کی گئی ہیں۔ بلکہ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) پر موقوف ہے اور یہی تصریح چونکہ توراۃ میں بھی وارد ہے اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ روایت اہل کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ اس بنا پر پسلی سے پیدا کئے جانے والی روایت کی علما نے تاویل کی ہے کہ اس سے عورت کی فطرت اور طبعیت کی طرف اشارہ ہے اور بعد میں حدیث کا تتمہ فان ذھبت تقنھا کسر تھا اوکما قال سے مزید اس تاویل کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم) ف 6 اس کا عطف اللہ پر ہے ای وتقوا الارحام یعنی قطع رحمی اور رشتے داروں کے ساتھ بد سلو کی سے بچو۔ اس کو الا رحام کسریوم کے ساتھ بڑھنا لحن ہے اور قواعد نحو یہ کی روسے بھی ضعیف ہے ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے یعنی قطع رحمی سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے سوا کرتے ہو۔ (کذافی القرطبی) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تمام عمائے شریعت ولغت کا اتفاق ہے کہ ارحام سے محروم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ (فتح القدیر) قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے ایک حدیث میں ہے کہ رحم کا عرش معلمہ کے ساتھ معلق ہے اور کہہ رہا ہے جو شخص مجھے توڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے توڑے گا اور جو مجھے جوڑے گا اللہ تعالیٰ بھی اسے جو ڑے گا۔ ( بخاری مسلم) ف 7 یعنی تمہارے تمام احوال واعمال کو دیکھ رہا ہے۔ (ابن جریر)