سورة النجم - آیت 32

الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ ۚ هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ۖ فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو لوگ بڑے گناہوں (٢١) اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں، سوائے کچھ چھوٹے گناہوں کے، بے شک آپ کا رب بڑا مغفرت کرنے والا ہے، وہ تمہیں اس وقت سے خوب جانتا ہے، جب اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا تھا، اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹوں میں پلتے ہوئے بچے تھے، پس تم لوگ اپنی پاکی نہ بیان کرو، وہ اس شخص سے خوب واقف ہے جو اس سے ڈرتا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 لم دراصل کسی چیز کی تھوڑی سی مقداریا اس میں تھوڑی دیر رہنے یا اس کے قریب پہنچ جانے مگر رک جانے کو کہتے ہیں۔ مثلاً الم بالمکان یعنی وہ اس میں تھوڑی دیر ٹھہرا۔ الم بکذا وہ قریب قریب اس تک پہنچ گیا وغیرہ اس بنا پر اکثر مفسرین نے اللمھ سے صغیرہ گناہ مراد لئے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن فوراً باز آجاتے ہیں۔ وغیر ذلک (ابن کثیر) ف 7 یعنی چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرماتا رہتا ہے۔ اگر انسان بڑے گناہوں سے بچتا رہے اور توبہ کرلے تو بڑے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ ف 8۔ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا ف 9 یعنی اپنی تعریف مت کرو اور نہ دوسرے سے اپنے آپ کو بہتر سمجھو۔ کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ” برۃ“ (نیک عورت) نام رکھنے سے منع کیا اور فرما ” اپنی پاکیزگی مت جتائو“ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے نیک کون ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم)