وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مومنوں کے دو گروہ (٧) آپس میں برسر پیکار ہوجائیں، تو تم لوگ ان کے درمیان صلح کرو، پس اگر ان میں کا ایک گروہ دوسرے پر چڑھ دوڑے، تو تم سب مل کر باغی گروہ سے جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف رجوع کرلے، پس اگر وہ رجوع کرلے، تو تم لوگ دونوں گروہوں کے درمیان عدل و انصاف کے مطابق صلح کرادو، اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے
ف 7 یعنی دونوں کو سمجھائو اور حق بات ماننے کے لئے کہو۔ یہ خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں۔ صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ایک مرتبہ ایک گدھے پر سوار ہو کر انصار کی ایک مجلس میں گئے جس میں عبداللہ بن ابی منافق بھی تھا۔ وہ بدبخت کہنے لگا ذرا ہٹ کر بیٹھو مجھے تمہارے گدننے کی بدبو سے تکلف ہو رہی ہے۔ ای کانصاری کہنے لگا ” خ دا کی قسم ! آنحضرت کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ یہ سن کر غصہ میں آگیا اور دونوں طرف کے لوگ جھڑپوں، جوتوں اور گھونسوں سے باہم مار پٹائی کرنے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) یہ حدیث مختلف الفاظ اور سیاق کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے۔ ف 1 حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انصاف کرنے والے عرش کی دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں غیروں اور اپنوں کے درمیان