سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
عنقریب جہاد سے پیچھے رہ جانے والے کہیں گے (٩) جب تم لوگ اموال غنیمت لینے کے لئے چلو گے، کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ جانے دو، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں، آپ کہہ دیجیے کہ تم ہمارے سات نہیں جا سکوگے، اللہ نے پہلے ہی ایسا فرمادیا ہے، تو وہ کہیں گے، بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، بلکہ وہ بہت کم سمجھتے ہیں
ف 9 جب آنحضرت اور صحابہ کرام حدیبیہ سے واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ خیبر فتح ہوگا اور اس کا مال غنیمت صرف ان لوگوں کو ملے گا جو صلح حدیبیہ میں آنحضرت کے ساتھ گئے تھے چنانچہ جب مسلمانوں نے خیبر کا رخ کیا تو یہ گنوار منافق بھی آ پہنچے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ ف 10 اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی یہ بات ہے کہ خیبر کے سفر میں صرف ان لوگوں کو ساتھ لیا جائے جو حدیبیہ گئیت ھے اور بیعت رضوان میں ش ریک ہوئیت ھے یا آیت فاستاذنوا اللخروج نقل لن تخرجوا معنی ابدا ولن تقابلو معنی عدوا (توبہ 83) کی طرف اشارہ ہے مگر علمائے تفسیر نے پہلی تاویل کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔ (قرطبی) ف 11 یعنی حسد کرتے ہو یکہ غنیمت کے اموال میں ہمارا حصہ کیوں ہو۔ ف 12 جو مخلص مسملانوں کو حسد کا طعنہ دیتے ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ انہیں ہرگز دنیا کی طمع نہیں ہے اور یہ کہ خیبر کی طرف انہیں ان کا جذبہ جہاد لے جا رہا ہے نہ کہ محض مال غنیمت کا حصول