تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ
وہ آندھی اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو نیست و نابود کر رہی تھی، چنانچہ وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے سوا اب کچھ نظر نہیں آرہا تھا، ہم مجرم قوم کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں
ف 7 صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ابر نمودار ہوتا تو آنحضرت کے چہر مبارک پر فکر کے آثار نمودار ہوجاتے ہیں۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا بات ہے لوگ جب بادل دیکھت یہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش آئی اور آپ کے چہرہ مبارک سے تشویش ظاہر ہونے لگتی ہے؟ فرمایا : عائشہ ! میرے پاس ضمانت نہیں کہ اس ابر میں عذاب نہیں ہوگا۔ ایک قوم پر اسی ابر سے عذاب آچکا ہے اور اسی عذاب کو دیکھ کر ایک قوم نے کہا۔ ” ھذا عارض ممطرنا“ اور حدیث میں ہے جب آندھی چلتی تو آپ دعا کرتے :” اے اللہ ! میں ت جھ سے اس ہوا کی جو چیز اس میں ہے اور جس چیز کے ساتھ اسے بھیجا گیا ہے اس کی خیر طلب کرتا ہوں اور اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (شوکانی) ف 8 یعنی گھر رہ گئے، گھر والے ختم ہوگئے۔ ف 9 اس کی تفصیل سورۃ ہود میں گزر چکی ہے۔