وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور جن لوگوں نے کفر کیا، انہوں نے ایمان لانے والوں سے کہا کہ دین اسلام بہتر (٩) ہوتا تو اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہیں لے جاتے، اور چونکہ اس قرآن سے انہوں نے ہدایت حاصل نہیں کی، اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے
ف 8 ’ بلکہ ہم اسے پہلے اختیار کرنے والے ہوتے۔“ یہ بات سردارن قریش مسلمانوں کے بارے میں اس لئے کہا کرتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو معزز اور جہاں دیدہ اور مسلمانوں کو ذلیل و ناتجربہ کار سمجھتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں آنحضرت کی پیروی اختیار کرنے والے یا تو غریب طبقہ کے لوگ تھے یا نوجوان ف 9 گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ معیار حق ہم ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو قبول کرلیں تو وہ حق ہے ورنہ سراسر باطل جس میں پرانے زمانے سے لوگ اپنی بیوقوفی کی بدلوت پھنستے رہے ہیں۔