يَغْشَى النَّاسَ ۖ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
وہ لوگوں کو ڈھانک لے گا، یہ ایک دردناک عذاب ہوگا
ف 2 حضرت حذیفہ (رض) کی روایت میں قیامت کی دس نشانیوں میں سے ایک نشانی دھواں بتائی گئی ہے اور حضرت ابن عباس (رض) نے یہی دھواں مراد لیا ہے جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا بہت سے صحابہ (رض) و تابعین کا بھی یہی قول ہے اور حافظ ابن کثیر (رض) نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ ( ایضا جامع) لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد اس قحط کا دھواں ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا سے قریش پر آیا تھا کیونکہ وہی اس آیت کی شان نزول ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب قریش کی سر کشی حد سے بڑھ گئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی :” اے اللہ ! ان کے مقابلہ میں میری مدد فرما اور ان پر سات برس کا قحط نازل کر جیسا کہ قحط تو نے یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں بھجیا تھا“۔ چنانچہ ایسا سخت قحط آیا کہ قریش ہڈیاں تک چوسنے لگے، آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کے مارے اسے زمین اور آسمان کے درمیان دھواں سا معلوم ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ پھر قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بارش کی دعا کے لئے درخواست کی تو بارش ہوئی اس پر اگلی آیت ( انا کاشفوا العذب۔۔۔۔) نازل ہوگی مگر قریش اپنے کفر پر قائم رہے۔ اس پر اگلی آیت ( یوم نبطش۔۔۔ نازل ہوئی اور بدر کے روز اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا۔ ( تنبیہ) لخان میں اختلاف کی طرف بطشۃ کبری میں بھی حضرت ابن عباس (رض) اور ابن مسعود (رض) کے مابین اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بطشۃ کبری سے قیامت کے دن کا عذاب مراد لیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بدر کا دن مراد لیتے تھے۔ ( ابن کثیر، قرطبی)۔