وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
اور بہت سے انبیاء کے ساتھ اللہ والوں کی ایک بڑی تعداد نے جہاد (100) کیا تو اللہ کی راہ میں ان کو جو تکلیف پہنچی اس کی وجہ سے نہ ہار مان لی اور نہ کمزور پڑے، اور دشمن سے دب گئے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
ف 2 رِبِّيُّونَ یہ رِبَّہ کی طرف منسوب ہے جس کے معنی جماعت کے ہیں اور یہ جملہ حالیہ ہے ای ومَعَہُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ اسْتَكَانُوا ۔ یہ سُکُونٌ سے باب افتعال ہےاور کاف کے بعد الف برائے اشباع ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ’’ کون‘‘ سے استفعال ہو لیکن پہلے اشتقاق کی آیت کے معنی سے زیادہ منا سبت ہے۔ (قرطبی۔) ان تینوں آیتوں سے مقصود ان لوگوں پر عتاب اور تنبیہ هے جو احد کے دن شکست کے آثار دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے اور آنحضرت (ﷺ) کی شہادت کی افواہ سن کر با لكل ہی پست ہوگئے پس فرمایا تم سے پہلے انبیا کے متبعین گزر چکے ہیں ان کی اتباع کرو اور اس قسم کی کمزوری نہ دکھا و (قرطبی ابن کثیر) یعنی ان لوگوں میں بہت سے رِبِّيُّونَ اپنے انبیأ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے لیکن انہوں نے اپنی قلت تعداد اور بے سرو سا مانی کے باوجود کبھی ہمت نہ ہاری اور نہ کبھی اپنے انبیا کے وفات پا جانے یا شہید ہوجا نے کی صورت میں وساوس میں مبتلا ہوئے بلکہ ہمیشہ اور ہر حال میں صبر و استقلال سے کام لیتے رہے۔اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں پر عفوودرگزرکی درخواست کرتے رہے۔