سورة الزخرف - آیت 20

وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور کافروں نے کہا کہ اگر رحمن ( اللہ) چاہتا تو ہم ان (فرشتوں) کی پرستش (٧) نہ کرتے، انہیں اللہ کی مشیت کا صحیح مفہوم معلوم نہیں ہے، یہ لوگ بے سمجھے بوجھے بولتے ہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 یہ اپنی گمراہی اور مشرکانہ گستاخی پر کفار مکہ کا ایک اور استدلال تھا یعنی وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے کے بجائے سارا الزام تقدیر الٰہی پر دھرتے تھے کہ خدا ہی کی یہ مشیت تھی اور اسی نے ہماری قسمت میں یہ لکھ دیا تھا کہ ہم فرشتوں کودیویاں سمجھ کر ان کی پرستش کریں، تقدیر الٰہی سے اس قسم کا غلط استدلال باطل پرستوں کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے اور آج بھی ہے حالانکہ خدا کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی پسند دوسری چیز ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتاجیسے یہ مشرک کہتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر شرک سے روکنے کی کیا ضرورت تھی۔ ( ابن کثیر) ف 8 یعنی وہ تقدیر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور خدا کی مشیت کو غلط معنی پہناتے ہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” یعنی یہ تو سچ ہے کہ بن چاہے خدا کے کوئی چیز نہیں پر اس کا بہتر ہونا نہیں نکلتا۔ اسی نے قوت بھی پیدا کیا اور زہر بھی پر زہرکون کھاتا ہے۔ (موضح) ف 9 یعنی جہالت کی بناء پر ایسی باتیں بناتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔