وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور ہم نے اسی طرح اپنے حکم سے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے، اور نہ ایمان کو جانتے تھے، لیکن ہم نے قرآن کو نور بنایا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اور اے میرے نبی ! آپ یقیناً لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتے ہیں
ف 5 یعنی جس طرح پہلے انبیاء پر ہم نے وحی بھیج۔ اسی طرح۔۔۔۔۔ یا وحی کے جو طریقے اوپر مذکور ہوئے ہیں ان سب کے ذریعہ۔۔۔۔۔ ف 6 روح سے مراد قرآن بھی ہے اور حدیث بھی اور قرآن و حدیث کو ” روح“ سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ انہی سے انسان کو اخلاقی زندگی حاصل ہوتی ہے ورنہ وہ اخلاقی اعتبار سے مردہ ہوتا ہے۔ ف 7 یعنی منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پیشتر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل کی جائیگی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صفات باری تعالیٰ اور دین و شریعت کی تفصیلی معلومات دی جائیں گی جن پر آپ خود بھی ایمان لائیں گے اور دوسروں کو بھی ایمان لانے کی دعوت دیں گے۔ تفصیلی معلومات کی قید ہم نے اس لئے لگائی ہے کہ وحی سے قبل انبیاء ( علیہ السلام) توحید اور نفس ایمانکے ساتھ متصف ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے اور انبیاء ( علیہ السلام) کی سیرت کا مطالعہ اس امر کی شہادت کے لئے کافی ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ الضحی : آیت 7)