سورة الشورى - آیت 51

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس سے اللہ بات (٣٠) کرے، سوائے اس کے کہ اس پر وحی نازل کرے، یا کسی اوٹ کے پیچھے سے، یا کسی رسول کو بھیجے جو اس کی اجازت سے، وہ جو چاہے، اس کی وحی پہنچا دے، وہ بے شک سب سے اونچا، بڑی حکمتوں والاہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلہ کو نافذ ہونے سے روک سکے یا اس کی تخلیق و تقسیم پر حرف گیری کرسکے۔ ف 2 یعنی اس طرح کہ دل میں کوئی بات ڈال دے یا خواب میں کچھ دکھا دے جیسے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو خواب دکھایا گیا۔ ( الصافات :103، یوسف 4) ایک حدیث میں ہے کہ ” روح القدس ( جبریل ( علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ کوئی جان اس وقت تک نہ جائے گی جب تک اپنا رزق پورا نہ کرے اور اس کی ہوئی اجل نہ آجائے اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آنے کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی۔ ( ابن کثیر)۔ ف 3 یعنی اس طرح کہ بندہ آواز سنے مگر بولنے والانظر نہ آئے، جیسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو کوہ طورکے دامن میں ایک درخت سے آواز سنائی دی مگر بولنے والا اللہ تعالیٰ ان کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ (طہٰ 11، 48 النمل :8، 12 قصص، 3، 35) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے کلام ہوئے ہیں پردہ کے پیچے سے “۔ ( موضح) ف 4 یہ وحی آنے کی وہ صورت ہے جو انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کے ذریعہ تمام آسمانی کتابیں انبیاء علیہم السلام تک پہنچتی ہیں اور فرشتہ کبھی غیر مرثی شکل میں آتا ہے اور کبھی انسانی شکل میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) وحیہ کلبی کی شکل میں آئے اور ایک مرتبہ ایک اعرابی کی شکل میں آئے اور امور ایمان کے متعلق سوال کیا جن کے چلے جانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( جاء یعلمکم دینکم) بہر حال آیت میں وحی کی تمام صورتوں کا احصاء مذکور نہیں ہے۔ الا بتکلف واللہ اعلم۔