وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اور برائی کا بدلہ (٢٥) اسی کے برابر ہونا چاہیے، پس جو معاف کر دے، اور اصلاح کرلے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، وہ بے شک ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے
ف 9 یعنی بدلہ لینے میں اس قاعدہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جس قدر زبانی ہوئی ہے اس سے بڑھ کر بدلہ نہ لے۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ اسے اجر عطا فرمائے گا۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز منادی ہوگی کہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں جن کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پھر وہی لوگ کھڑے ہونگے جنہوں نے دنیا میں لوگوں کے قصور معاف کئے تھے۔ ( شوکانی) ف 11 ظالم وہ ہے جو برائی کی ابتداء کرے یا برائی کا بدلہ لینے میں اس سے زیادہ برائی کا ارتکاب کرے۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو دو شخص اہم گالم گلوچ کریں تو اس کا سارا وبال پہل کرنے والے پر ہے جب تک کہ دوسرا بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔