سورة الشورى - آیت 7

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں ایک قرآن (٤) کی وحی کی ہے، تاکہ آپ اہل مکہ اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو ڈرائیے، اور انہیں جمع ہونے کے اس دن سے ڈرائیے جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے، ایک گروہ جنت میں جائے گا، اور ایک گروہ جہنم میں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 12’’ أُمَّ الْقُرَى ‘‘کے لفظی معنی ہیں بستیوں کی ماں یا جڑ اور’’ گرد ‘‘سے مراد ساری دنیا ہے۔ مکہ کو أُمَّ الْقُرَى اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ روئے زمین کے تمام شہروں ( قریٰ) سے افضل و اشرف ہے۔ جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے بازار میں کھڑے ہو کر فرمایا : (وَاَللهِ إنّك ‌لَخَيْرُ ‌أَرْضِ اللهِ وَأَحَبّ أَرْضِ اللهِ إلَيّ) کہ اللہ کی قسم ! تو اللہ کی سب سے بہتر اور میری سب سے محبوب زمین ہے۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” بڑا گائوں پر فرمایا مکہ کو کہ سارے عرب کا مجمع وہاں ہوتا ہے اور ساری دنیا میں گھر الله کا وہاں ہے آس پاس اسکے اول عرب پھر ساری دنیا۔ ف 13 یعنی قیامت کے دن ( یوم الجمع) نتائج اعمال کے اعتبار سے ایک گروہ جنتی ہوگا اور دوسرا دوزخی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جنتی اور دوزخی لکھے جا چکے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔