وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور جب ان سے کوئی بدکاری (93) ہوجاتی ہے، یا اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور اپنے گناہوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے، اور اپنے کیے پر، جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے
ف 6 یعنی اگر بشر تقاضے کے تحت ان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کر کے توبہ واستغفار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ معافی چاہتے ہیں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کر کے توبہ استغفار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے میرے بندے کو معاف کردیا۔ ابن کثیر) ف 7 اصرار کے معنی ہیں اڑجانا اور لا پر وائی سے گناہ کرتے جا نا اور ان پر ندامت کا اظہار نہ کرنا ارونہ تو بہ ہی کرنا ورنہ اگر کسی شخص سے سچے دل سے توبہ کرنے کے بعد گناہ سرزد بھی ہوجاتا ہے تو اسے اصرار نہیں کہتے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے ما اصر من استغفر وان عادفی الیوم اسبعین مرہ کے سچے دل سے توبہ واستغفار کے بعد اگر کسی شخص سے ایک دم میں ستر مرتبہ بھی گناہ سرزد ہوجائے تو اسے مٖصر نہیں کہا جائے گا۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) وھم یعلمون یعنی وہ جانتے ہیں کہ جو شخص توبہ کرلے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں۔ ابن کثیر