وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ
یہی وہ تمہاری بد گمانی ہے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی، تمہاری ہلاکت کا سبب بن گئی، پس تم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے بن گئے
ف ٧ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :” تم میں سے کسی شخص کا انتقال نہیں ہونا چاہیے مگر اس حال میں کہ اللہ سے اس کا گمان اچھا ہو، اس لئے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ سے ان کا برا گمان ہی لے ڈوبتا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) حسن بصری نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” انا عند من عبدی بی وانا معہ اذا دعانی“ ( میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی ہوں جیسا دوسرے ساتھ گمان کرے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے۔) اس کے بعد امام حسن (رض) بصری کچھ دیرخاموش رہے اور پھر بولے ” ہر شخص کا عمل ویسا ہوتا ہے جیسا اس کا اپنے رب سے گمان ہوتا ہے۔ مومن کا اپنے رب سے گمان چونکہ اچھا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا عمل بھی اچھا ہوتا ہے اور کافروں اور منافقوں کا اپنے رب سے گمان چونکہ اچھا نہیں ہوتا اس لئے ان کا عمل بھی خراب ہوتا ہے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا ” وما کنتم۔۔۔۔ الی قولہ من الخاسرین) (ابن کثیر)