وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
اور تیزی کرو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اس کی جنت کی جانب جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے
ف 2 یعنی جس طرح سود خوار کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے اسی طرح تابعدار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق عر ضھا السموات والا رض فرماکر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص نے اس آیت کے متعلق سوال کیا کہ اگر جنت کا عرض آسمان کے برابر ہے تو دوزخ کہاں ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ رات چھا جائے تودن کہا ہوتا ہے ؟ اس نے کہا جہاں اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو آپ ﷺ نے فرمایا یہی حال دوزخ کا ہے۔ یعنی تکون حیث شاہ اللہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح ایک جانب رات ہوتی ہے اور دوسری جانب دن ہوتا ہے یہی حال جنت دوزخ کا ہے اس سوال کا یہی جواب حضرت عمر (رض) اور عبد اللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے۔ (ابن کثیر) جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ان پر بلا کیف ایمان رکھان ضروری ہے خواہ ہمارے عقل وذہن کی رسائی ان تک نہ ہو اور یہی نہیں بلکہ جملہ امور آخرت کا یہی حال ہے۔