سورة غافر - آیت 67

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اسی نے تمہیں مٹی (٣٨) سے پیدا کیا ہے، پھر نطفہ سے، پھر لو تھڑے سے، پھر وہ تمہیں (رحم مادر سے) بچہ کی شکل میں نکالتا ہے، پھر (تمہارے لئے زندگی کے اسباب مہیا کرتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر (تمہیں زندہ رکھتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہوجاؤ، اور تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی مرجاتے ہیں، اور تاکہ تم سب اپنے اپنے مقرر وقت کو پہنچ جاؤ، اور شاید کہ تم لوگ ان باتوں کو سمجھو

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٧ یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے، کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے مر جاتا ہے۔ ف ٨ یعنی اس عمر تک جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھی ہے با قیامت جبکہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ ف ٩ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لئے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ سکو کہ کوئی خدا ہے جس نے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور جو اپنی قدرت کاملہ سے اس کا نظام چلا رہا ہے اور یہ کہ وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، جس کی اس کے علاوہ عبادت کی جائے۔ شاہ صاحب (رح) اپنی توضیح میں لکھتے ہیں، یعنی اتنے احوال تم پر گزرے، شاید ایک حال اور بھی گزرے ( اور) وہ ( ہے) مر کر جینا۔ ( موضح)۔