فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
پس اے میرے نبی ! آپ صبر کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیے، اور شام کو اور صبح کے وقت اپنے رب کی تعریف اور پاکی بیان کرتے رہیے
ف ٤ قصور سے مراد امت کے قصور ہیں یا وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں جو بتقاضائے بشریت انبیاء ( علیہ السلام) سے سر زد ہوجاتی ہیں جیسے رائے اور اجتہاد کی غلطی یا شدید مخالفت کی فضاء میں کچھ نہ کچھ بے صبری کی کیفیت اور پھر انبیاء ( علیہ السلام) کو استغفار کا حکم اس لئے ہے کہ ان کے درجات زیادہ سے زیادہ بلند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبادت میں مشقت اٹھاتے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پائوں ورم آلود ہوجاتے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ( افلا اکون عبدا شکورا) کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت رسول اللہﷺ دن میں سو سو بار استغفار کرتے گناہ سے ہر بندے سے قصور ہے، اس کے موافق ہر کسی کو استغفار ہے۔ ( موضح) عصمت انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہ پر قائم رہنے سے بچایا ہے اور یہی قول ہے موافق ان آثار کے جو سلف (رح) سے منقول ہیں۔ ( تفسیر الایۃ الکریمہ) ف ٥ یعنی ہر آن اللہ تعالٰ کی تسبیح و بحمدہ کرتے رہے یا صبح و شام کے اوقات میں نماز پڑھئے مگر یہ حکم اس وقت تھا جب پنج وقتہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب معراج کے موقع پر نماز پنجگانہ فرض ہوگئی تو ان کے اوقات کا بھی باقاعدہ تعین کردیا گیا۔ ( شوکانی)