وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ (74) کرو، تو سب نے (٧٥) سجدہ کیا، مگر ابلیس (٧٦) نے انکار کردیا، اور استکبار سے کام لیا، اور وہ (اللہ کے علم میں) کافروں (٧٧) میں سے تھا۔
ف 3: ابلیس کے متعلق اکثر علماء کا خیال یہ ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا۔ ابن جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (قرطبی )اور آیت İ كَانَ مِنَ الْجِنِّ Ĭ۔ (الکہف :5) کا جواب یہ دیا ہے کہ قرآن میں لفظ جن کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے۔ (الصافات :158) بعض نے لکھا ہے کہ اصل میں تو ابلیس جنوں میں سے تھا مگر بوجہ کثرت عبادت کے فرشتوں میں شمار ہونے لگا تھا اور اس کا نام عزازیل تھا پھر بعد میں نافرمانی کی وجہ سے ابلیس کے نام سے موسوم کردیا گیا جس کے معنی ناامید کے ہیں۔ (قرطبی۔ وحیدی) اورİ كَانَ مِنَ الْكَافِرِينَĬکے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں پہلے سے کافر تھا۔ (المنار )