اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ روحوں (٢٧) کو ان کی موت کے وقت پورے طور پر لے لیتا ہے، اور جن کی موت نہیں آئی انہیں نیند کی حالت میں لے لیتا ہے، پھر جن کی موت کا فیصلہ کردیتا ہے انہیں روک لیتا ہے، اور باقی روحوں کو ان کے وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے، بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں
ف ٥” جان دو طرح کی ہے ایک ” نفس الحیاۃ“ یعنی وہ جان جس سے زندگی قائم ہے اور دوسری ” نفس التمیز“ یعنی وہ جان جس سے فہم و ادراک اور احساس و شعور قائم رہتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ مرنے والے کی ” نفس الحیاۃ“ اور سونے والے کی نفس التمیز اپنی طرف اٹھا لیتا ہے“۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس (رض) کی طرف منسوب ہے جسے زجاج نے اختیار کیا ہے۔ شاہ صاحب (رح) نے بھی اپنی توضیح میں اسی کو اختیار کیا ہے لکھتے ہیں : کہ نیند میں جو جان کھینچتی ہے۔ یہ جان وہ ہے جسے ہوش ( نفس التمیز) کہتے ہیں اور ایک جان جس سے دم چلتا ہے اور نبضیں اچھلتی ہیں اور کھانا ہضم ہوتا ہے وہ دوسری ہے وہ موت سے پہلے نہیں کھینچتی۔ الغرض اس تفسیر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ نفس اور روح دو چیزیں ہیں۔ مگر اس آیت اور صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں کیونکہ قبض کا لفظ روح اور نفس دونوں کے لئے آیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ نیند کی حالت میں بھی تو فی ہوتی ہے اور موت کے وقت بھی حالانکہ موت کے وقت آدمی میں جان نہیں رہتی اور نیند کی حالت میں جان باقی رہتی ہے تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اس کے جواب حضرت علی (رض) فرماتے ہیں :” نیند کی حالت میں روح کا تعلق جسم سے قائم رہتا ہے جیسے سورج کی شعاع کہ وہ زمین پر بھی پڑتی ہے اور سورج کے ساتھ بھی قائم ہے مگر موت کے وقت وہ تعلق قائم نہیں رہتا جیسا کہ قیامت کے دن سورج کے دم و بے نور کردیا جائے گا“۔ (از احسن) ف ٦ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” نیند میں ہر روز جان کھینچتا ہے پھر بھیجتا ہے۔ یہی نشان ہے آخرت کا ( موضح) مطلب یہ ہے کہ جو خدا سونے والے کی جان قبضے کر کے دوبارہ اس کے بدن میں لوٹا دیتا ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ایک دن مرنے والے کی جان بھی اس کے بدن میں لوٹا دے۔ ( ابن کثیر)