مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
وہ لوگ اس دنیاوی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اس کی مثال اس تیز ہوا کی ہے جس میں کڑاکے کی سردی ہو، جو ایسی قوم کی کھیتی کو جا لگے جس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہو، اور اس (کھیتی) کو تباہ کردے، اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا
ف 8 یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر نہ دیا آخرتے میں دیا نہ دیا برابر ہے ْ۔ ( موضح) اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا ہے کہ ان کی ادنی نیکی بھی ضائع نہیں ہوگی بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اب اس آیت میں کافر کے صدقہ وخیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بے فائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ظالم کی اس کھتی سے تشبیہ دی ہے جو دیکھنے میں سرسبز وشاداب نظر آئے لیکن یکایک سرد ہوا چلے اور اسے تباہ وبرباد کر کے رکھ دے یہی حال کفار کے صدقہ وخیرات کا ہے۔ وہ چونکہ ایمان واخلاص کی دولت سے محروم ہیں اسے لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گے اور انہیں ان کا کچھ بھی اجر نہ ملے گا کیونکہ آخرت میں نیک اعمال کی حفاظت کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے ایمان و اخلاص کا احصار یہ نہیں تو تمام اعمال بیکار ہوں گے واضح رہے کہ قرآن میں عموما ریح کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور یاح) جمع کا لفظ رحمت کے لیے اسفردات۔ ف 1 یعنی ان کے اعمال جو ضائع وبرباد ہوگئے یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے بلک ریا کاری کرتے ہیں۔