وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ
اور جو لوگ بتوں (١٢) کی پرستش سے بچتے ہیں، اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، ان کے لئے خوشخبری ہے، پس اے میرے نبی ! آپ میرے بندوں کو خوشخبری دے دیجیے
ف ٢ اصل میں لفظ ” طاغوت“ ( بروزن فعلوت لا فاعول اصلہ طغیوت او طغووت) طغیان سے مشتق ہے لہٰذا اس سے مراد شیطان بھی ہے اور بت بھی، کاہن اور پروہت بھی اور ہر وہ انسان بھی جو بندگی کی حد سے نکل کر اپنے آپ کو خدائی کے مقام پر رکھتا ہو۔ اس کی عبادت سے مراد محض اسے سجدہ کرنا نہیں بلکہ اسے مستقبل بالذات آمر و مطاع سمجھتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری بھی ہے۔ علامہ جوہری لکھتے ہیں۔ ( الطاغوت الکاھن والشیطان وکل راس فی الضلال) کہ اس سے مراد شیطان، کاہن اور ہر وہ چیز ہے جو گمراہی کا منبع بنے۔ امام راغب لکھتے ہیں ( ھو عبارۃ عن کل معبود من دون اللہ) کہ یہ ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے۔ (روح)