أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
) کیا ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات میں سجدہ (٨) اور قیام کے ذریعہ اپنے رب کی عبادت میں لگا ہو، عذاب آخرت سے ڈرتا ہو، اور اپنے رب سے اس کی رحمت کی امید لگائے ہو۔ اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں، بے شک عقل والے ہی نصیحت کرتے ہیں
ف ٣” اس کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جس کا ذکر بھی ہوا“۔ یہ عبارت محذوف ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور حال دریافت فرمایا۔ وہ بولا ” مجھے اللہ کی رحمت کی امید ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر ہے“۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسے وقت میں جس بندے میں یہ دونوں باتیں ہوں گی اس کو اللہ تعالیٰ وہی دیگا جس کی اسے امید ہے۔ ( شوکانی) ف ٤ یعنی کیا وہ لوگ جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جانتے ہیں ان لوگوں کے برابر ہو سکتے ہیں جو ان باتوں کو سچ نہیں جانتے؟ ظاہر ہے کہ دونوں یکساں نہیں ہو سکتے۔ نہ دنیا میں ان کی روش یکساں ہو سکتی ہے اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک سا ہوگا۔ ف ٥ ان سے مراد اہل ایمان ہیں کیونکہ عقل وہی معتبر ہے جو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہو۔