مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ
یہ ناممکن ہے کہ اللہ ایک آدمی کو کتاب و حکمت اور نبوت دے، پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے (60) بن جاؤ، بلکہ ( وہ یہ کہے گا کہ) تم لوگ اللہ والے بن جاؤ، اس وجہ سے کہ تم لوگ دوسروں کو اللہ کی کتاب سکھاتے تھے، اور خود بھی اسے پڑھتے تھے
ف 1 توراۃ وانجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی الوہیت کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان سے اپنی الوہیت کا دعویٰ محال ہے۔ (کبیر) تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نجران کے عیسائی اور مدینہ کے چند یہود علما آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی بنوۃ خدا کا بیٹا ہونے) کا رد کیا او ان مسلمان ہونے کی دعوت دی۔ اس پر ایک یہود عالم نے ابو رافع القرضی کہنے لگا اے محمد ﷺ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ کی عبادت کرنے لگیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا معاذ اللہ کہ ہم غیر اللہ کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے او نہ مجھے اس کا حکم دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ایضا کبیر) پھر جب نبی اس کا مجاز نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور اٗئمہ اس مرتبہ پر کیسے فائز ہو سکتے ہیں۔ انبیا کی بحیثیت نبی ہونے کی اتباع واجب ہوتی ہے مشائخ اور ائمہ تو واجب الا تباع بھی نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر بتصرف، شوکانی) الربنی۔ رب پر الف نون بڑھا کر یا نسبت لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرو فرماتے ہیں کہ یہ ربہ یر بہ فھو ربان ہے۔ یعنی صیغہ صفت ربان کے ساتھ یا نسبت ملحق ہے۔ (فتح البیان) بما کنتم میں با برائے مصیبت ہے یعنی چونکہ تم تعلیم ودراست کا مشغلہ رکھتے ہو اس لیے تمہیں عالم باعمل اور خدا پرست بننا چاہئے (بضاوی) حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں : ہاں تم کو ( اے اہل کتاب) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی کتاب کا پڑھنا اور سکھا نا وہ نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سکھنے سکھانے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ فائدہ کسی شخص میں اگر علم اوکتب الہٰیہ کی دراست سے خد اپرستی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ تحضیع اوقات ہے اور آنحضرت ﷺ نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے لا ینفع ( اے للہ ! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں و غیر نافع ہو) (رازی۔ فتح البیان ) مضمون اور نزول کے اعبتار سے آیت سابق سے متعلق ہے۔ یہود ونصاریٰ میں نبیوں اور فرشتوں کی پر ستش کی جاتی تھی۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ نصاریٰ نے انبیا ( علیہ السلام) اور فرشتوں کی تعظیم میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو الو ہیت کے مقام پر کھڑکر دیا۔ (جامع البیان) حدیث اتخذوا قبور انبیا ھم مساجد او صورو فیھم تیک الصور (کہ انہوں نے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور انمیں ان کی تصویریں لٹکا دیں) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نبی ( علیہ السلام) یا فرشتے کی پرستش صریح کفر ہے اور کوئی ایسی تعلیم یا فلسفہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی ( علیہ السلام) کی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ ایا مر کم میں استفہام انکاری ہے یعنی یہ ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ انبیا تو لوگوں کی عبادت الہی کی تعلیم دینے اور مسلمان بنانے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں نہ کہ الٹا کافر بنانے کے لیے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جو آنحضرت ﷺ کی نبوت پر دال ہوں۔ (کبیر) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور ان کے بعد ہر نبی ( علیہ السلام) سے عہد لیا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی ( علیہ السلام) کی تصدیق اور اس کی مدد کریگا اور اس بارے میں کسی کی گروہ بندی اور عصیت اس کے راستے رکا وٹ نہیں بنے گی۔ اگر وہ نبی ( علیہ السلام) اس کی زندگی میں آجائے تو بذات خود اس پر ایمان لائے کا اراگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی ( علیہ السلام) پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم سے جائے گا۔ اساعتبار سے گو یا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) پر اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے آّنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے، بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ پہلے تمام انبیا ( علیہ السلام) سے فروادایہ عہدلیا گیا تھا کہ اگر ان کے زمانے میں نبی آخرالز مان ظاہر ہوجائے تو اس پر ایمان لا نا اور اس کی مدد کرنا ہوگا۔ (وحیدی) بہر حال آنحضرﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الا تباع ہیں۔ اب آپ ﷺ کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں چند اوراق تھے جو ان کی کسی یہودی نے تورات سے لکھ کردیئے تھے۔ حضرت عمر (رض) نے وہ اوراق پیش کرنے کی اجا ازت مانگی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میر جان ہے اگر تم میں موسیٰ ( علیہ السلام) بھی آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو گمراہ ہوجا و گے۔ (س دارمی )