سورة فاطر - آیت 32

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے برگزیدہ بندوں کو بنایا، تو ان میں سے بعض نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اور بعض نے اعتدال کی راہ اختیار کی، اور بعض نے اللہ کی توفیق سے نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف سبقت کی، یہی در حقیقت اللہ کا بڑا فضل ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٥ یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کتاب کے وارث اپنے بر گزیدہ بندوں کو بنایا یعنی یہ امت جو امت وسط ہے اور اسے خیر الانبیا ( علیہ السلام) کی امت ہونے کا شرف حاصل ہے اور ” اور ثنا“ سے مراد یہ ہے کہ ہم نے مقرر کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کتاب کے وارث اس امت کے علماء کو بنا دینگے۔ ( فتح البیان) ف ٦ بعض علماء نے تفسیر (رح) نے سورۃ واقعہ میں جو اہل محشر کے تین گروہ مذکور ہیں۔ ان پر اس آیت کو بھی منطق کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی جان پر ظلم کرنے والوں سے کافر اور منافق مراد لئے ہیں مگر یہ تفسیر قرآن کے سیاق کے خلاف ہے کیونکہ یہاں تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرما کر ان کا جتنی ہونا بیان کیا ہے اور اس کے بعد اہل دوزخ کا ذکر فرمایا ہے۔ لہٰذا ان سے کافر اور منافق مراد نہیں ہو سکتے۔ پس صحیح یہی ہے کہ اپنی جان پر ظلم کرنے والوں سے مراد گناہ گار مسلمان ہیں جو آخر جنت میں داخل ہونگے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عباس (رض) سے علی بن طلحہ (رض) کی روایت میں ہے اور حضرت ابو اللہ (رض) اسے مرفوعاً مروی ہے کہ ( ظالم لنفسہ) سے مراد وہ گناہ گار مسلمان ہیں جو اپنے گناہوں کے سبب میدان حشر میں دیر تک رہ کے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرما کر جنت میں داخل کرے گا۔ اس کی تائید متعدد روایات ( مرفوع و موقوف) سے بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا جمہور مفسرین نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ ( احسن الفوائد) اور حدیث (شفاعتی لاھل الکبائر من امتی) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ گار مسلمان آخر جنت میں داخل ہونگے اور مقتصد میں وہ لوگ آتے ہیں جو فرائض کے پابند اور محرمات سے مجتنب رہتے ہیں مگر بعض مستجاب کے تارک اور بعض مکروبات کے مرتکب ہوجاتے ہیں، اور تیسرے سابق بالخیرات یعنی وہ لوگ جو نہ صرف فرائض کو ادا کرتے اور محرمات سے مجتنسب رہتے ہیں بلکہ مستحبات پر بھی کار بند رہتے ہیں اور مکروہات سے بچتے رہتے ہیں۔ کذاروی عن اکثر السف۔ حضرت بن عباس (رض) فرماتے ہیں ( سابقون بالخیرات) تو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے اور مقصد وہ جن کا حساب تو ہوگا مگر (حسابا بسیرا) کے بعد جنت میں چلے جائیں گے اور ظالم اور اعراف والے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے جنت میں داخل ہونگے۔ (ابن کثیر)