وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ ۗ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
اور اسی طرح لوگوں اور چوپایوں اور جانوروں کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں، بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا زبردست، بڑا مغفرت کرنے والا ہے
ف ١ علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات، افعال و احکام اور قدرتوں کا علم ہے نہ کہ صرف و نحو، فلسفہ تاریخ جغرافیہ اور سائنس وغیرہ رسی علوم اور حقیقت ہے کہ جس کسی شخص کو معرفت باللہ زیادہ حاصل ہوگی، اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوگا یعنی تقویٰ بقدر علم ہوتا ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو چونکہ حسب مراتب معرفت باللہ دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (انا اخشاکم للہ واتقاکم لہ) میں تم سب کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا ڈر بڑا علم ہے اور اس سے بے خوفی بڑا جہالت ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں :” علم کثرت حدیث کا نام نہیں ہے بلکہ کثرت خشیت کا نام ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد ہے : ” رحمان کا علم رکھنے والا وہ ہے جو شرک نہ کرے، اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھے، اس کی ہدایت پر کار بند رہے اور اسے یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر تمام اعمال کا حساب ہوگا۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں : ” علم کثرت روایت کا نام نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ ( روح، ابن کثیر)