وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ
اور تمہارے اموال (٢٩) اور تمہاری اولاد وہ چیزیں نہیں ہیں جو تمہیں ہم سے قریب کردیں گی، بلکہ جو ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا، انہی کو ان کے نیک اعمال کا دوہرا بدلہ ملے گا، اور وہ لوگ جنت کے بالا خانوں میں امن وامان کے ساتھ رہیں گے
ف ١ مطلب یہ ہے کہ محض کسی شخص کا صاحب مال و اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب اور پسندیدہ ہونے کی علامت نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر مال و اولاد کو عمل صالح کا ذریعہ بنایا جائے تو بیشک یہ چیزیں قرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ف ٢ یعنی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٦١( ابن کثیر) ف ٣ یہاں ” عرفات“ سے مراد منازل ودرجات ہیں اور ” کوئی فکر نہ ہوگی“ کیونکہ جنت کی نعمتیں ابدی اور دائمی ہوں گی۔ ( ابن کثیر)