وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
اور نہ اس کے نزدیک سفارش (١٨) کام آئے گی، سوائے اس شخص کے جس کے لئے وہ سفارش کی اجازت دے گا، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ (١٩) دور ہوجاتی ہے تو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟ تو اوپر والے فرشتے کہتے ہیں کہ ” حق کہا ہے“ اور وہ اونچی شان والا، بڑا کبریائی والا ہے
ف ٢ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش فائدہ دے سکتی ہے جو کسی ایسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا فرشتے یا نیک بندے کی طرف سے ہو جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے اور وہ کسی ایسے شخص کے حق میں ہو جس کے لئے سفارش کرنے کی اجازت اللہ تعالیٰ دے ( بقرہ : ٢٥٥، النجم : ٢٦١) اور یہ ظاہر ہے کہ کوئی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہو یا فرشتہ وہ اہل ایمان کے حق میں سفارش کرے گا اور کرسکے گا، نہ کہ کافروں اور مشرکوں کے حق میں صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہﷺ تمام مخلوق کے حق میں شفاعت کرنے کے لئے مقام محمود پر کھڑے ہونگے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونگے کچھ دیر اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ میں پڑا رہنے دیگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی تعریف و ستائش کرتے رہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔”(اے محمدﷺ) اپنا سر اٹھایئے اور جو کچھ عرض کرنا چاہیں کیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنی جائیگی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخواست پوری کی جائے گی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول ہوگی۔۔۔۔“ (الحدیث ( ابن کثیر)۔ ف ٣ اس آیت میں سفارش کرنے والے فرشتوں کا حال بیان ہوا ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش عوام چاہتے ہیں اولیا سے، وہ انبیاء سے، وہ فرشتوں سے ( حالانکہ) فرشتوں کا حال یہ ہے جو ( اس آیت میں) فرمایا کہ جب اوپر سے اللہ کا حکم اترتا ہے تو آواز آتی ہے جیسے پتھر پر زنجیر، فرشتے ڈر سے تھر تھراتے ہیں۔ جب تسکین آئی اور کلام ( ترچہ) تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم ہوا؟ اوپر والے بتاتے ہیں نیچے کھڑوں کو جو اللہ کی حکمت کے موافق ہے اور انگے سے قاعدہ معلوم ہے، وہی حکم ہوا؟ (موضح) آیت کی یہ تفسیر صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ (رض) اور دوسری متعدد صحیح روایات کے مطابق ہے اس لئے حافظ ابن کثیر (رح) نے اسی کو آیت کی صحیح تفسیر قرار دیا ہے۔