إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
بے شک ہم نے اپنی امانت (55) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اسے اٹھا لیا، وہ بے شک بڑا ہی ظالم، نادان تھا
ف ١ تمام مفسرین کے بقول اس جگہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کا ہار ہے جن کے بجا لانے پر ثواب اور خلاف ورزی کرنے پر عذاب مترتب ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے جو اس یک اور مطالب بیان کئے ہیں وہ دراصل اسی کی تفصیلات ہیں۔ ( شوکانی) زمین و آسمان اور پہاڑوں کو بار امانت پیش کرنا لغوی اور حقیقی معنی کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار عظیم کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے محض تمثیلی انداز میں یہ بات فرمائی گئی ہو۔ واللہ علم۔ ف ٢ جو اس نے اس بار عظیم کی ذمہ داری تو لے لی مگر اسے نبھایا نہیں۔ یہ بات نوع انسانی کے اکثر افراد کے لحاظ سے فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنی فطرت سلیمہ یا ذمہ داری قبول کرنے کے تقاضے پر عمل نہیں کیا۔ ( روح المعانی) شاہ صاحب (رح) نے ” ظلوماً جھولا“ کا ترجمہ بے ترس نادان کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ؟ پرائی چیزرکھنی اپنی خواہش کو روک کر، زمین و آسمان میں اپنی خواہش کچھ نہیں دیا ہے تو وہی ہے جس پر قائم ہیں۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے اس پر پرائی چیز کو بر خلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ ( موضح)