وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور جب آپ اس شخص سے کہتے (30) تھے جس پر اللہ نے احسان کیا اور آپ نے بھی اس پر احسان کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو، اور اللہ سے ڈرو، اور آپ اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا، اور آپ لوگوں سے خائف تھے، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار تھا کہ آپ اس سے ڈرتے، پس جب زید نے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلی، تو ہم نے اس سے آپ کی شادی کردی، تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے شادی کرنے میں کوئی حرج باقی نہ رہے، جب وہ منہ بولے بیٹے ان بیویوں سے اپنی ضرورت پوری کرلیں، اور اللہ کے فیصلے کو بہر حال ہونا ہی تھا
ف ٤ زید (رض) بن حارثہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بڑا احسان یہ کیا کہ ان کو آزاد کر کے اپنا متنبی ٰ بنا لیا اور پھر اپنی پھوپھی زاد بہن سے ان کا نکاح کردیا۔ واضح رہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب یہ نکاح ہوچکا تھا لیکن میاں بیوی کے درمیان تعلقات نے ناخوشگوار صورت اختیار کرلی تھی۔ حتیٰ کہ زید (رض) نے طلاق دینے کا تہیہ کرلیا تھا۔ ف ٥ یعنی اسے طلاق دینے میں جلدی نہ کرو اور اس کے معاملے میں اللہ سے ڈر۔ ف ٦ یہ بات کیا تھی؟ تفاسیر میں اس باب میں متعدد اقوال مذکور ہیں۔ بعض اقوال ایسے بھی ہیں جو شان نبوت کے سراسر منافی ہیں، اس لئے حافظ فتح الباری میں لکھتے ہیں :” کہ ان کا بیان مناسب نہیں ہے“۔ اور حافظ ابن کثیر (رح) نے بھی ان کے بیان سے پہلو تہی کی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی پہلے سے خبردار کردیا گیا تھا کہ زینب (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہونے والی ہے۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے اظہار سے شرماتے کہ مخالفین الزام لگائیں گے کہ دیکھئے اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ اس لئے جب زید (رض) نے آ کر شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ” امسک علیک زوجک واتق اللہ“ اس پر اللہ تعالیٰ نے عتاب آمیز لہجہ میں فرمایا کہ جب میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے بتا دیا ہے کہ زینب (رض) کا نکاح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہونے والا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید (رض) سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کے لائق نہیں بلکہ بہتر یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہتے یا زید (رض) سے کہہ دیتے کہ تم جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرلو۔ علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ یہ عتاب ترک اولیٰ پر ہے۔ (روح) حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی کتاب میں سے کوئی بات چھپانے والے ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کو چھپاتے۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٧ یعنی جب زید (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اور عدت ختم ہوگئی۔ ف ٨ یہ نکاح خود اللہ نے پڑھایا، اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر ایجاب و قبول اور مہر وغیرہ کے اسے اپنی زوجیت میں لے لیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت زینب (رض) دوسری ازواج و مطہرات (رض) پر فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے پڑھایا اور میرا نکاح سات آسمانوں کے اوپر خود اللہ تعالیٰ نے پڑھایا۔ ( ابن کثیر)۔