يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے اہل کتاب ! ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، حالانکہ تورات اور انجیل تو ان کے بہت بعد میں نازل کی گئی ہیں، کیا تم سمجھتے نہیں ہو
ف 5 یہود حضرت ابراہم ( علیہ السلام) کو یہودی ہونے کے دعوے دارتھے اور نصاریٰ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے نصرانی ہونے کے مدعی تھے اور یہ بات ایسی تھی جو بد ہتہ غلط تھی۔ حضرت ابراہیم کا زمانہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے تقریبا ڈھائی ہزار برس پہلے کا ہے پھر وہ یہو دی یا نصرانی کیسے ہو سکتے تھے چنانچہ اس آیت میں ان کے اس دعویٰ کی تردید فرمائی ہے۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر ) ف 6 اس آیت میں زصرف غلط پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ مطلقا مجادلہ سے گریز کی نصحیت بھی کی ہے۔ ابن کثیر، فتح القدیر)