وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو، اور اگلے زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار کے ساتھ نہ نکلا کرو، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو، اللہ تو چاہتا ہے کہ تم سے یعنی نبی کے گھرانے والوں سے گندگی کو دور کر دے، اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے
ف ٦” قرن“ کا لفظ ” قرار“ سے مآخوذ ہے اور بعض نے اسے ” وقار“ سے مانا ہے مطلب ہے یہ کہ عزت و وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور بازاری عورتوں کی طرح گھومتی نہ پھرو۔ یہ حکم امہات المومنین (رض) کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام عورتوں کو شامل ہے اور عورتوں کے اپنے گھروں میں رہنے اور بلا ضرورت باہر نہ نکلنے کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں۔ (قرطبی)۔ ف ٧ یہاں اولیٰ کا لفظ احتراز کے لئے نہیں ہے بلکہ جاہلیت جہلا کی طرح یا تو ایک محاورہ ہے یا اسلام سے پہلے کی حالت کے اعتبار سے اولیٰ فرما دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو عورت بنائو سنگار کر کے بے پردہ باہر نکلتی ہے اس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عورت چھپی رہنے کے قابل چیز ہے جب باہر نکلتی ہے تو اسے شیطان تاکتا ہے۔ جاہلیت میں رواج تھا کہ عورتیں بنائو سنگھار کر کے بر پردہ باہر نکلا کرتی تھیں۔ اب یہی رواج ثقافت اور دوسرے خوشنما ناموں سے ہمارے زمانہ میں عود کر آیا ہے۔ فواسفا۔ اسلام نے صرف واقعی ضرورت کے پیش نظر پردے کے حدود کی پابندی کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے حتیٰ کہ مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کے لئے اگر جانا چاہیں تو حکم ہے کہ عام اور سادہ لباس میں ہوں اور خوشبو لگائے ہوئے نہ ہوں۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٨ آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہاں اہل بیت سے مراد نبیﷺ کی ارفیع (رض) ہیں۔ جیسا کہ ” یا نساء النبی“ اور اگلے خطاب سے معلوم ہوتا ہے اور قرآن میں ’ ’ اہل البیت“ کا لفظ صرف بیوی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ ( دیکھئے سورۃ ہود : ٧٣) بعض روایات میں ہے کہ جب آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض)، علی (رض)، حسن (رض) اور حسین (رض) کو بلایا اور ان پر اپنا کمبل ڈال کر دعا فرمائی۔ ( اللھم ھولاء اھل بینی فاذھب عنھم الرجس وطھرھم الطھیرا) اے اللہ ! میرے اہل بیت ہیں ان سے نا پاکی دور فرمایا اور انہیں صاف ستھرا بنا دے “۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ازواج مطہرات (رض) اہل البیت میں سے نہیں ہیں بلکہ اصل میں آیت تو ” ازواج مطہرات“ ہی کے متعلق نازل ہوئی ہے اور ان کو تطہیر کی خوشخبری دی گئی ہے پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے حضرت فاطمہ (رض)، علی (رض)، حسن (رض)، حسین (رض) بھی اس میں شامل ہوگئے۔ اسکی دلیل یہ بھی ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے ان پر کمبل ڈالا اور نہ دعا کی تو حضرت ام سلمہ (رض) نے بھی اپنا سر اس کپڑے کے اندر کرلیا اور عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( انک الی خیبر مرتین) تو تم اس خیر میں دوہری شامل ہو یعنی اس آیت کے اعتبار سے بھی اور میری اس دعا کے تحت بھی ( قرطبی)۔