وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور تم لوگ جو سود) (٢٥) دیتے ہو، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں
ف 9 یعنی ان کے مال و دولت میں شامل ہو کر بیٹھ جائے۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ اس میں کوئی برکت نہیں دیتا بلکہ وہ آدمی کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں وبال اور لعنت کا سبب بنتا ہے۔ بعض مفسرین (جیسے قتادہ ضحاک اور عکرمہ وغیرہ) کیا خیال ہے کہ اس آیت میں ربا سے مراد و سود نہیں جو شرعاً حرام کیا گیا ہے بلکہ اس سے وہ عطیہ یا تحفہ مراد ہے جو آدمی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ بعد میں اس سے زیادہ واپس کرے گا۔ ایسا عطیہ دینا حرام نہیں ہے لیکن اس کا کوئی ثواب بھی نہیں ملتا۔ ان کے خیال میں فلا ربوا عند اللہ“ (وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا) کا یہی مطلب ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی) ف 11 دس گنے سے سات سو گنے تک دراصل اس بڑھوتری کا انحصار انسان کی نیت اور جذبہ پر ہے۔