وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور رسول بنا کر بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گا (جو ان سے کہے گا کہ) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے اکر آیا ہوں، وہ یہ کہ میں مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤ گا، پھر اس میں پھونک ماروں گا، تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ ہوجائے گا، اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو، اور برص والے کو ٹھیک کردوں گا، اور مردوں کو زندہ کردوں گا، اور جو کچھ تم کھاتے ہو، اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو، ان کی تمہیں خبر دوں گا، اگر تم ایمان والے ہو تو اس میں تمہارے لیے ایک نشانی ہے۔
ف 2 یہاں خلق کا لفظ ظاہر شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہو اہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا احیو اما خلقتم (کہ تم نے جو خلق کیا اسے زندہ کرو) پیدا کرنے اور ندگی دینے کے معنی ہیں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ف 3 یہاں باذن اللہ لا لفظ مکر ذکر کرنے سے یہ بتا نا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) یہ معجزات نہ کھا سکتے۔۔ اور یہی ہر نبی کے معجزات کا حال ہے۔ (شو کانی۔ ابن کثیر) ف 4 اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی ( علیہ السلام) کو اس کے زمانے کے منا سب حال معجزات عطا فرمائے ہیں۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانے میں جا دو اور جا دوگروں کا دور تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات دے کر بھیجا جن سے تمام جاد وگر دنگ رہ گئے اور ان کی عقل چکرا گئی۔ بآلا آخر از خود مسلمان ہوئے اور اسلام کی راہ میں پھا نسی تک کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ میں طیب اور علوم طبیعہ (سائنس) کا چرچہ تھا۔ سوا للہ تعالیٰ نے انہیں وہ معجزات عنایت فرمائے جن کے سامنے تمام اطبا اور سائنسدان اپنے عاجز اور درماندہ ہونے کا اعتراف کیے بغیر نہ وہ سکے ہمارے رسول ﷺ کے زمانے میں فصاحت وطلا غت اور شعر و ادب کا ڈنکا بجتا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے نے ان پر وہ کتاب نازل فرمائی جس نے تمام فصحا اور بلغا کی گردنیں خم کردیں اور وہ بار بار چیلنج سننے کے باوجود اس جیسی دس سورتیں تو کجا ایک سورت بلکہ ایک آیت تک پیش نہ کرسکے کیوں اس لیے کہ پروردگار کا کلام مخلوق کے کلام سے مما ثلث نہیں رکھتا، (ابن کثیر۔ کبیر