وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
اور تم لوگ اہل کتاب سے بحث و مادلہ (٢٦) صرفا سی طریقہ سے کرو جو سب سے عمدہ ہو، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو کہ ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو ہم پر نازل کی گئی ہے اور تم پر نازل کی گئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور ہم نے اسی کے سامنے اپنے سر جھکا رکھے ہیں۔
5۔ یعنی معقول دلائل اور شائستہ زبان کے ساتھ ان کے انبیا اور ان کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے۔ یہی حکم اب بھی ہے (ابن جریر) نیز دیکھئے۔ (سورہ نمل :125) 6۔ یعنی اگر وہ صریح بے انصافی، ضد اور ہٹ دھرمی پر تل جائیں تو ان سے ان کے رویہ کے مطابق سختی کا برتائو بھی کرسکتے ہو۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ ان سے مراد مشرکین اہل کتاب ہیں۔ یا وہ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا رسانی پر تلے رہتے تھے۔ بہرحال یہ آیت مکی ہے اس سے قتال ثابت نہیں ہوتا۔ (روح) 7۔ یعنی توراۃ، انجیل، زبور اور ان دوسرے صحیفوں پر جو تمہارے انبیا پر نازل ہوئے۔ ایک حدیث میں بھی اسی کی تلقین فرمائی گئی ہے : لاتصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبومھم و قولوا امنا“ گویا یہ بھی ” وجادلھم بالتی ھی احسن“ کی ایک صورت ہے۔ (تنبیہ) پہلی کتابوں کے متعلق اجمالی طور پر یہ تسلیم کرنا تو ضروری ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ہیں، مگر عمل صرف قرآن و حدیث پر کیا جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ” اہل کتاب سے کوئی مسئلہ دریافت نہ کرو اس لئے کہ وہ خود گمراہ ہوگئے تمہیں ہرگز ہدایت نہ کریں گے“ پھر فرمایا :” اللہ کی قسم، اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ (شوکانی)