ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
یہ غیب کی خبریں (38) ہیں، جو ہم آپ کو بذریعہ وحی بتا رہے ہیں، اور آپ ان کے پاس اس وقت نہیں تھے، جب وہ اپنے قلم (بطور قرعہ نہر اردن میں) ڈال رہے تھے، کہ مریم کی کفالت کون کرے، اور جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے
ف 3 یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں جن کا علم آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتا تھا لہذا ان باتوں کا صحیح صحیح بیان کرنا آپ ﷺ کو رسول ہونے کے صریح دلیل ہے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف 4 اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمراب کی بیٹی تھیں۔ جن ان کی والدہ نے انہیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے مجاوروں میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آ خر کار انہوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے نام نکلا۔ (ابن کثیر، قرطبی)