وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ
اور فرعون نے کہا (١٩) اے اہل دربار، میں نے اپنے سوا تم لوگوں کا اور کوئی معبود نہیں جانا ہے پس اے ہامان، اینٹیں پکواؤ اور میرے لیے ایک اونچی عمارت بنواؤ تاکہ میں ٠ اس پر چڑھ کر) موسیٰ کے معبود کو دیکھ سکوں اور میں تو اسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں
4۔ شاہ صاحب (رح) نے یہاں ” الہ“ (خدا) کا ترجمہ ” حاکم“ کیا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ فرعون اپنے آپ کو ارض و سماکا خالق اور معبود نہیں سمجھتا تھا بلکہ وہ خود بہت سے دیوتائوں کی پرستش کرتا تھا۔ (سورہ اعراف :127) پس فرعون کا مطلب یہ ہے کہ میں ہی تمہارا مطاع اور حاکم مطلق ہوں۔ میرے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوسکتا جس کی فرمانبرداری کی جائے۔5۔ جو یہ کہتا ہے کہ میرا خدا آسمان پر ہے فرعون نے جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا، ہر دور میں خدا کے منکر ایسی باتیں کھلتے آئے ہیں۔