فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے مدت پوری کرلی اور اپنے بال بچوں کولے کرچلے (١٥) تو انہوں نے طور پہاڑ کی طرف ایک آگ دیکھی، انہوں نے اپنے بال بچوں سے کہا یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے لیے (راستہ کی) کوئی خبر لاؤں، یا آگ کا ایک انگارہ، تاکہ تم اسے تاپو۔
2۔ یہ کلمہ عہد کو پختہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔“ ہمارے حضرت محمدﷺ بھی وطن سے نکلے۔ سو آٹھ برس پیچھے آ کر مکہ فتح کیا۔ اگر چاہتے اسی وقت شہر خالی کرواتے کافروں سے۔ دس برس پیچھے پاک کیا۔“ (موضح) 3۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے آٹھ برس کے بجائے دس کی مدت پوری کی تھی۔ یہی بات متعدد روایات میں نبیﷺ سے بھی مروی ہے۔ ان روایات کی سند میں اگرچہ کلام ہے لیکن وہ ایک دوسرے سے مل کر قوی ہوجاتی ہیں۔ (شوکانی) 4۔ یہ اس لئے کہ غالباً حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اندھیری رات میں راستہ بھول گئے تھے۔ (طہ :10)